گذشتہ دنوں سی وی کے غیر ضروری یا نقصان دہ اجزا پر لکھا تو زیادہ تر دوستوں نے اتفاق کیا جب کہ کچھ نے بجا طور پر یہ سوال بھی کیا کہ آپ نے یہ تو بتا دیا کہ سی وی میں کیا نہیں شامل کرنا چاہیے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا کیا ہونا چاہیے۔ اس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ ‘ڈونٹس’ [don’ts] کو نکال کے باقی وہ سب کچھ رہنے دیں جو آپ کے سی وی میں ہے۔ تاہم جب ایک دوست نے (شاید مذاقا؟) یہ لکھا کہ انہوں نے ان چیزوں کو نکال دیا تو پیچھے میٹرک اور ایف اے کا سال تکمیل ہی رہ جائے گا تو مجھے لگا کہ ایک اور پوسٹ لکھنا پڑے گی۔ کیوں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں کئی اچھے کام کیے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہمارے مستقبل کے ایمپلائرز وغیرہ کو معلوم ہونا چاہیے۔ سی وی میں عموما تعلیم، ہنر، تجربہ، پبلیکیشنز، وغیرہ ضروری سمجھے جاتے ہیں (ان مندرجات کی ترتیب آپ جاب کی نوعیت کے مطابق بدل سکتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کسی ایسی جگہ اپلائی کر رہے ہیں جہاں تعلیم کی جگہ تجربہ یا پبلیکیشنز زیادہ اہم ہیں تو وہاں آپ کام کے تجربے یا پبلیکیشنز کو اوپر لے آ سکتے ہیں تاہم زیادہ تر لوگ تعلیم کو ہی سب سے پہلے رکھتے ہیں اور یہی زیادہ تر اداروں اور کمپنیوں کی توقع بھی ہوتی ہے۔)۔
1۔ آپ سی وی کا لفظ اور اپنا آخری نام ہیڈر میں ڈال سکتے ہیں تاکہ ہر صفحے پر آپ کی فائل اور آپ کی اپنی شناخت قائم رہے۔ ایک سے زیادہ صفحوں کی صورت میں صفحہ نمبر اور صفحوں کی کل تعداد بھی لکھنی چاہیے تا کہ اگر صفحات آگے پیچھے ہو جائیں یا کوئی صفحہ فائل سے الگ ہو جائے تو پڑھنے والے کو معلوم ہو۔
2۔ سی وی کو اپنے نام کے ساتھ شروع کریں۔ اگر آپ کا قلمی یا معروف نام اصل نام سے مختلف ہے تو دونوں لکھیں۔ ‘غیر سرکاری’ نام کو ‘اصل’ نام کے نیچے بریکٹ میں لکھیں۔ دونوں نام دینا اس لیے ضروری ہے کہ آج کل داخلہ کمیٹیاں بھی اور ایمپلائرز بھی آپ کے نام کو سرچ کرتے ہیں۔ آپ کی آن لائن موجودگی چاہے وہ فیس بک، انسٹاگرام یا ویب سائٹس کی صورت میں ہو آپ کی شخصیت کا پتہ دیتی (پول کھولتی) ہے۔ یہاں کینیڈا، امریکہ میں بعض پی ایچ ڈی میں داخلے کے خواہاں یا جاب کے متلاشی اپنی ایک پروفیشنل ویب سائٹ بھی بنالیتے ہیں جس کا ایک بڑا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ایمپلائر یا داخلہ کمیٹی کا ممبر آپ کے نام کو سرچ کرتا ہے اور آپ کی پروفیشنل آنلائن نمائندگی کو دیکھ کر آپ کی سنجیدگی سے متعارف ہوتا ہے۔
3۔ نام کے نیچے اپنا پروفیشنل ای میل اور فون نمبر درج کریں۔ تاہم زیادہ تر ایمپلائرز کو آپ کے والد صاحب کی آپ کی شان میں گالی یا بیک گراونڈ میں لگا نوراں لعل کا کوئی گانا شاید پسند نہ آئے، اس لیے نئے نمبر سے آنے والی کال کو صرف اس صورت میں ریسیو کریں جب آپ شور وغیرہ سے پاک جگہ پر ‘کمفرٹیبل’ ہوں۔
4۔ اگر آپ کی موجودہ ملازمتی حیثیت متاثر کن ہے تو اسے فون نمبر کے بعد بائیں طرف درج کریں۔ اگر نہیں تو اپنے تک رہنے دیں یا تجربے والے حصے میں لے جائیں۔
5۔ تعلیم: اس سیکشن میں وہ چیزیں ضرور لکھیں جو متاثر کن ہوں۔ یعنی اگر آپ کے نمبر/سی جی پی اے میٹرک سے لے کر موجودہ ڈگری تک بہت اعلٰی (میٹرک، انٹر میں 70 فی صد سے اوپر، بی ایس، ایم ایس وغیرہ میں 3.5 سے زیادہ سی جی پی اے) ہیں تو ضرور لکھیں۔ اگر آپ کے تعلیمی اداروں کی رینکنگ اور شہرت اچھی ہے تو ان کے نام ضرور لکھیں۔ اگر آپ کی بی-ایس، ایم-اے، ایم فل، پی-ایچ- ڈی کے دوران کی جانے والی ریسرچ کے موضوعات دل چسپ ہیں تو وہ بھی لکھیں۔ اگر آپ کے سپروائزر کا بڑا نام ہے تو وہ بھی ضرور لکھیں۔ اگر آپ حالیہ دنوں تک اپنی تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے ڈگری یا سرٹیفکیٹ کر رہے تھے تو تواریخ بھی ضرور لکھیں۔
6۔ ہنر: ایک زمانے میں ایم ایس آفس کو ہنر کے طور پر خاص طور پر لکھا جاتا تھا۔ مگر اب اسے جاننا ایسے ہی ہے جیسے الف، ب۔ بالعموم پاکستانیوں کے لیے سب سے متاثر کن چیز زبان ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ کم از کم تین زبانیں جانتے ہیں۔ جب بھی باہر اپلائی کریں لینگوئج اسکلز کا ذکر ضرور کریں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو ایک سے زیادہ اسکرپٹس میں لکھنا بھی آتا ہے۔ لہٰذا ان کا بھی ذکر ضرور کریں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ہنر ہوتے ہیں جنہیں ہم ‘فار گرانٹڈ’ لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ہمارے سیکھنے کے جذبے اور صلاحیت کا پتہ دیتے ہیں۔ مثلا اگر آپ کو کپڑے سینا، کشیدہ کاری کرنا، ٹریکٹر یا بلڈوزر چلانا یا گاڑی ٹھیک کرنا آتا ہے تو اسے اپنی اس سی وی میں ضرور لکھیں جو آپ بیرونی ممالک میں کسی جگہ بھیجنا چاہ رہے ہیں۔
7۔ تجربہ: حالیہ کام سے شروع کریں۔ کسی بڑی کمپنی یا ادارے کے ساتھ ایک ہفتے کا کام بھی متاثر کن ہو سکتا ہے۔ مثلا اگر سیلاب زدگان کے نقصان کے سروے کے لیے آپ نے یو این او کے کسی ذیلی ادارے کے ساتھ پندرہ دن کام کیا یا بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں کسی پروفیسر کے ساتھ ایک سمسٹر کے لیے ہی سہی ‘فارملی’ یا ‘انفارملی’ بہ طور ٹیچنگ اسسٹنٹ کام کیا تو با وجود اس کے کہ ان کاموں کا دورانیہ کم ہے، کئی لوگوں کے لیے یہ بہت متاثر کن ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر ضرور کریں۔ تجربہ لکھتے وقت گرامر (ٹینس) کا خاص خیال رکھیں۔ اگر آپ تدریس سے وابستہ ہیں تو موجودہ نوکری کے لیے ‘ٹیچ ایٹ۔۔۔ایز۔۔۔’ لکھیں جب کہ گذشتہ کے لیے ‘ٹاٹ ایٹ۔۔۔ایز۔۔۔’۔ اگر آپ اپنا سی وی ٹیچنگ کے لیے ہی بھیج رہے ہیں تو ایسی صورت میں ان مضامین کے نام بھی لکھیں جو آپ نے پڑھائے ہیں۔
8۔ پبلیکیشنز: اگر آپ ایک سے زیادہ انداز کی چیزیں شائع کرتے ہیں تو علاحدہ علاحدہ ذیلی سرخیاں بنائیں۔ مثلا ریسرچ پیپر، کہانیاں، بک ریویو، اخباری مضامین، وغیرہ۔ سند کے لیے جہاں ممکن ہو آن لائن لنک دیں تاکہ آپ کا ایمپلائر یا ایڈمشن کمیٹی چاہے تو فورا ویریفیکیشن کر سکے۔
9۔ مشاغل: ٹکٹوں سے لے کر سکے جمع کرنے تک اور باغبانی سے لے کر پہاڑوں میں واک کرنے تک سارے مشاغل ہماری شخصیت کی خوبیوں کا اظہار ہیں۔ اس لیے کسی مشغلے کو کم تر نہ جانیں۔ تاہم کھیل اور مشغلے کو گڈ مڈ بھی نہ کریں۔ جہاں بھی مقابلہ ہے وہ کھیل ہے۔ اس لیے اگر آپ شطرنج یا سوئمنگ یا گھڑ دوڑ وغیرہ کے کھلاڑی ہیں تو ان کو علاحدہ سے لکھیں۔
10۔ ایونٹ مینجمنٹ:
اکثر نوجوانوں نے کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں کئی پروگراموں کے انعقاد میں حصہ لیا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان کا کردار اپنے اساتذہ سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ان تمام پروگراموں کی فہرست عنوانات اور تاریخوں کے ساتھ لکھیں چاہے ان کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس سرٹیفکیٹ نہ بھی ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر ایمپلائر سرٹیفیکیٹ نہیں پوچھتے۔ کسی کو شک ہو تو وہ دو سوال کر کے اندازہ لگا سکتا ہے یا جہاں یہ ایونٹ ہوا وہاں کال کر کے تصدیق کروا سکتا ہے۔
11۔ ممالک جہاں کا سفر کیا: اگر آپ نے غیر ممالک کا سفر کیا ہو تو ضرور لکھیں کیوں کہ یہ آپ کی تعلیم و تربیت کا بھی حصہ ہے اور تجربے کا بھی۔
12۔ سی وی کا فارمیٹ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے سی کو ایسی شکل دیں کہ دیکھنے والے کو اسے پڑھنے میں دقت نہ ہو۔ فیس بک کی پوسٹ میں پی ڈی ایف تو شاید اٹیچ نہیں ہوتا، لیکن فارمیٹ کے نمونے کے طور پر میرے سی وی کے پہلے دو صفحات کے عکس حاضر ہیں۔
(یاد رہے کہ اس تحریر میں سی وی کی بات ہو رہی ہے، ریزمے کی نہیں۔ ریزمے، سی وی سے بہت مختصر ہوتا ہے۔ عموما ایک صفحہ جس میں آپ صرف اور صرف وہ چیزیں شامل کرتے ہیں جن کی نوعیت اس جاب سے ملتی ہے جس کے لیے آپ ریزمے بھیج رہے ہیں۔ تاہم زیادہ تر ایمپلائرز سی وی ہی مانگتے ہیں کیوں کہ وہ آپ کی تمام تعلیمی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔)
بشکریہ ڈاکٹر محمد شیراز دستی صاحب